مطیع اللہ جان |
آخری گیند اور آخری بلے باز تک لڑنے والے عمران خان سے نئی سیاسی روایات کی کچھ زیادہ ہی توقعات پیدا ہو گئی تھی۔انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد عمران خان ایک اچھے کھلاڑی کی طرح اپنی ناقص کارکردگی کااقرار کرنے کی بجائے مخالف کھلاڑیوںاور ایمپائروں پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ اگر دھاندلی کے الزامات سے متعلق خان صاحب اتنے سنجیدہ ہوتے تو انہیں ثابت کرنے میں ناکامی پر تھوڑی سی شرمندگی اور ناکامی کا اعتراف ضرور کرتے اپنی جماعت سے ہی معافی مانگ لیتے قوم سے نہ سہی آخر وہ کریں بھی تو کیا۔اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکامی کا اعتراف کر کے خود کو پارٹی کی سربراہی سے دستبردار کرنے یا کم از کم پارلیمنٹ کے اجلاس میں ذاتی طور پر شریک ہونے کا اعلان کرنے کے لئے بھی اخلاقی جرا¿ ت کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ تو پرانے پاکستان کی سیاست کی روایت ہے اور نہ ہی نئے پاکستان کی سیاست میں امکان۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے
تاہم اخلاقیات اور اقدار کی کمی صرف تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں ۔انکوائری کمیشن کی رپورٹ نے ن لیگ اور اسکی حکومت کو وقتی طور پر مضبوط تو کر دیا ہے مگر شفاف عوامی مینڈیٹ والے حکمران اس مینڈیٹ کا عملی طور پر جو حشر کر رہے ہیں اسکے بعد یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ووٹ، ووٹ ہوتا ہے اصلی ہو یا جعلی۔عدالتی کمیشن کی رپورٹ نے حکومت کو مضبوط تو کر دیا مگر حکومت ہے کس کی یہ معاملہ حل طلب ہی رہے گا ۔فیصلے اب بھی وہاں ہوں گے جہاں پہلے ہوتے تھے۔ چند حکومتی وزراء کے بیانات اورٹی وی اینکر حضرات کے بیانات سے لگتا ہے کہ معاملہ منظم دھاندلی کا کبھی تھا ہی نہیں۔کمیشن کی رپورٹ سے جمہوریت اتنی مضبوط نہیں ہوئی جتنی رسوائی اس کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سودے بازی سے اٹھانی پڑی۔ کمیشن کی طرف سے جاری کردہ شفاف عوامی مینڈیٹ کا سرٹیفیکیٹ لہرانے والے چند وزراء اور ان کی حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سر عام پاک فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہان پر تحریک انصاف کے دھرنوں کو ترتیب دینے کا الزام لگا رہے ہیں۔
یہ وزراء کس منہ سے اُس شفاف عوامی مینڈیٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیںجس کو فوج کے چند جرنیلوں کے معاملے میں بروئے کار لاناان کے لئے ممکن ہی نہیں۔بے وقوفی اور نادانی کی انتہا دیکھیں کہ نام تو محض آئی ایس آئی کے سابق سربراہان کا لیا جا رہا ہے مگر بدنام (صحیح یا غلط) فوج کی موجودہ قیادت ہو رہی ہے۔آخر وزیر دفاع یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کے ہوتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل ایسی مہم جوئی کی ہمت بھی کر سکتے ہیں؟
اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تووزیر اعظم نواز شریف اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کو روکنے کے لئے شفاف عوامی مینڈیٹ کا بر وقت استعمال کیوں نہیں کیا؟سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنا کمزور دلوں کی نشانی ہے۔ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئیے۔کیاانکوائری کمیشن کی رپورٹ پر بھنگڑا ڈالنے والے حکمرانوں نے ایسے شفاف عوامی مینڈیٹ کا اچار ڈالنا ہے۔ایسے میں کیا فرق پڑتا ہے کہ تین معزز جج صاحبان دھاندلی کے الزامات کو مسترد کریں یا منظور۔انتخابات میں دھاندلی ایک سنگین معاملہ سہی مگر جو دھاندلی عوامی مینڈیٹ اور جمہوریت کے ساتھ مقتدر قوتیں کر رہی ہیں وہ ہمارے سیاسی نظام کے لئے ناسور بنتا جا رہا ہے۔ جب بیلٹ کی بجائے بلٹ کے زور پرقوموں کی تقدیر لکھی جا رہی ہو تو وہاں جعلی اور اصلی ووٹ میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ جہاں انصاف کے لئے فوجی عدالتیں اور اہم فیصلوں کے لئے عسکری نمائندوں کی شمولیت سے ایپکس کمیٹیاں بنائی جائیں۔ وہاں ووٹ کی پرچی سے ناک ہی صاف کیا جا سکتا ہے جس ملک میں حکومت اور اس کے وزراء چند مہم جو ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف اپنے آئینی اور قانونی اختیار کو استعمال کرنے کی بجائے عوام سے انصاف کی بھیک مانگ رہے ہوں تو اس ملک میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بیلٹ پیپروں کی اضافی چھپوائی کیوں ہوئی یا مقناطیسی سیاہی کا استعمال کیسے یا کیوں نہیں ہوا۔جس ملک میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات اور ثبوتوں کی فراہمی کے لئے فوج کے خفیہ اداروں کی معاونت کا قانون بنایا جائے تو اس ملک میں انتخابی عمل کی ہی کیا ضرورت ہے۔اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ تحریک انصاف کے اصرار پر انکوائری کمیشن کو آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس سے بھی دھاندلی کی تفتیش کروانے کا قانونی اختیار دے دیا گیا تھا۔
ان دو اداروں کے پاس منظم دھاندلی کے حوالے سے ثبوت ہو تو سکتے تھے مگر کیا ہونے چاہئیے تھے یا نہیں؟یہ ادارے نجی ٹیلیفون گفتگو، نجی ملاقاتوں اور گفتگو کی خفیہ آڈیو وڈیو کے علاوہ انتہائی خفیہ دستاویزات کے محافظ ہوتے ہیں مگر کسی جمہوری نظام میں انتخابی عمل کی نگرانی کرنا ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔اس کے باوجود انکوائری کمیشن کے قانون میں یہ اختیار دیا گیا جس پر عمران خان اور نواز شریف دونوں کی ایسی جمہوری سوچ پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔عمران خان بظاہر خفیہ اداروں سے جو امید لگا کر بیٹھے تھے وہ پوری نہیں ہوئی اور خان صاحب نہر والے پل پر ثبوتوں کا انتظار کرتے رہ گئے۔ نواز شریف نے بھی بظاہر 1990ء کے انتخابات کے دوران بنائے گئے تعلقات و تجربات کا خوب استعمال کیا۔ویسے بھی ایسے خفیہ شواہد منظر عام پر آنے سے اصل حکمرانوں کی شناخت ہو جاتی اور لوگ جان جاتے کہ جن بیلٹ بکسوں میں دھاندلی کا شور شرابہ ہے ان کی اہمیت حقیقت میں کوڑے دانوں سے زیادہ نہیں۔
نجانے یہ کیسے سیاستدان ہیں جو عوامی مینڈیٹ کی چوری کا رونا روتے ہیں یا اس کے شفاف ہونے کا گھمنڈ کرتے ہیںمگراگلے ہی سانس میں ان قوتوں سے مدد مانگتے ہیں جو اس مینڈیٹ کی چوری نہیں بلکہ اس پردن دھاڑے ڈاکہ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ جو دھاندلی بظاہر عمران خان کے ساتھ ثبوتوں کے وعدے کے ذریعے کی گئی اس کے بارے میں تو خان صاحب کے لئے
”اظہار بھی مشکل ہے ۔کچھ کہہ بھی نہیں سکتے“۔
”اظہار بھی مشکل ہے ۔کچھ کہہ بھی نہیں سکتے“۔
لگتا ہے خان صاحب بھی دوسرے سیاست دانوں کی طرح استعمال ہو گئے۔ نجانے اُن کے لئے یہ سمجھنا کتنا مشکل تھا کہ پاکستان میں عوامی حمایت اور طاقت کے دعویدار سیاست دان اگر ووٹ کی حرمت کا نعرہ لگاتے ہیں تو انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے،کچھ کی لاش لٹکا دی جاتی ہے اور کچھ کو زندہ لاش بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔خان صاحب کے فوج سے متعلق سوشل میڈیا پر متنازعہ بیان کی ویڈیوسے تو لگتا تھاکہ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر شاید وہ بیان بھی محض اس لئے دیا گیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ خود کو خالص سیاسی لیڈر ظاہر کر سکیں۔
ان حالات میں سپریم کو رٹ کے معزز جج صاحبان پر مشتمل انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی اہمیت ایک گنجے کی جیب میں کنگھی سے زیادہ نہیں۔جس ملک میں آئینِ پاکستان کے ساتھ 3 نومبر 2007ء اور اس سے پہلے 12 اکتوبر 1999ء کو دن دہاڑے اور 9 سال تک ہونے والی دھاندلی و سنگین غداری کو ثابت نہ کیا جا سکے اس ملک میں انتخابی دھاندلی کے ثبوت کہاں سے لائے جائیں۔ اور ویسے بھی 1990ء میں بمطابق سپریم کورٹ جو عوامی مینڈیٹ چرایا گیا اور دھاندلی ثابت ہوئی ہم نے بطور قوم اور حکومت اس بارے میں کیا تیر مار لیاہے۔اس تمام صورتحال میں ہماری جمہوریت کی مثال اس زیادتی کا شکار خاتون کی سی ہے جس کا نکاح اس کے مجرم یا مجرم کے بھائی سے کر دیا جائے۔مگر پھر ایسی شادی کی نکاح رجسٹرار ہماری عدالتیں بھی اس پر انگوٹھا لگا دیں تو محترمہ جمہوریت دکان سجانے کی بجائے گھر بسانے کو ترجیح نہ دے تو کیا کرے ۔یہ اور بات ہے کہ دکان سجانے والی سیاسی قیادت کی بھی کمی نہیںجو ایسے گھر کو بھی نہیں بخشتی اوراسے اجاڑنے کے لئے اپنی منڈیر پر کھڑی دعوت گناہ دیتی رہتی ہے۔مختصر یہ کہ اب وقت آگیا ہے کہ جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کی ڈولی کواس کے مجرموں کے ساتھ رخصت نہ کیا جائے اور اس کے لئے ایک سوال کا واضح جواب دینا ہو گا ۔۔۔۔"جمہوریت ولد آئین ِپاکستان تمہیں محافظ ولد قانون پاکستان کے نکاح میں بعوض حق مہر پانچ سالہ مدت شراکتی اقتدار دیا جاتا ہے۔ کیا تمہیں قبول ہے؟"
No comments:
Post a Comment