Wednesday, July 29, 2015

Fake encounter

LAHORE, Pakistan (Reuters) - Pakistani police killed the leader of the sectarian militant group Lashkar-e-Jhangvi, his two sons and 11 others on Wednesday in a shootout after gunmen attacked a police convoy and freed him as he was being moved, police said.
Malik Ishaq was on a U.S. list of terrorists and the group he founded has claimed responsibility for the deaths of hundreds of civilians, mostly minority Shi'ite Muslims.
He has faced several murder trials but always been acquitted after witnesses refused to testify. He was arrested again on Saturday, under a public order act, along with his two sons.
On Tuesday, police took Ishaq and the sons to an area near the Punjab province town of Muzaffargarh where they had seized an arms cache, to identify men they had detained on suspicion of being members of Ishaq's group.
As the police convoy returned in the early hours of Wednesday, a group of men on motorcycles ambushed them, freeing Ishaq and his two sons, police said.
"Twelve to 15 terrorists attacked the police party ... freed the accused and fled away on motorcycles," a police spokeswoman, Nabila Ghazanfar, quoted a policeman in the area as saying in a message.
Police further along the road attacked the gunmen as they were fleeing, killing Ishaq, his two sons, and 11 others, Ghazanfar cited the policemen as saying in her message.
Six police were wounded, he said.
"The accused, in custody, were under investigation for murder of dozens of people in target killings," the policeman said.
"The gang was also in league with the (Taliban) and al Qaeda groups operating in the area."
The circumstances of Ishaq's killing are bound to raise questions given a long police record of staging such encounters to eliminate suspects.
One senior police investigator not involved in this case, said police often staged such clashes as they did not have faith the courts would be brave enough to convict high-profile militants for fear of retaliation.
The investigator, who declined to be identified, said Ishaq's killing bore the hallmarks of police action under a National Action Plan (NAP) against militancy, launched last December after Pakistani Taliban militants killed 134 students at an army-run school in the city of Peshawar.
"This is NAP in action," the investigator said. "State policy on this is indiscriminate and broad-based: terrorists will not be tolerated, no matter who they are or what group they belong to.”
Another senior police official said Punjab province was being put on alert in anticipation of retaliatory attacks.
TrLAHORE, Pakistan (Reuters) - Pakistani police killed the leader of the sectarian militant group Lashkar-e-Jhangvi, his two sons and 11 others on Wednesday in a shootout after gunmen attacked a police convoy and freed him as he was being moved, police said.
Malik Ishaq was on a U.S. list of terrorists and the group he founded has claimed responsibility for the deaths of hundreds of civilians, mostly minority Shi'ite Muslims.
He has faced several murder trials but always been acquitted after witnesses refused to testify. He was arrested again on Saturday, under a public order act, along with his two sons.
On Tuesday, police took Ishaq and the sons to an area near the Punjab province town of Muzaffargarh where they had seized an arms cache, to identify men they had detained on suspicion of being members of Ishaq's group.
As the police convoy returned in the early hours of Wednesday, a group of men on motorcycles ambushed them, freeing Ishaq and his two sons, police said.
"Twelve to 15 terrorists attacked the police party ... freed the accused and fled away on motorcycles," a police spokeswoman, Nabila Ghazanfar, quoted a policeman in the area as saying in a message.
Police further along the road attacked the gunmen as they were fleeing, killing Ishaq, his two sons, and 11 others, Ghazanfar cited the policemen as saying in her message.
Six police were wounded, he said.
"The accused, in custody, were under investigation for murder of dozens of people in target killings," the policeman said.
"The gang was also in league with the (Taliban) and al Qaeda groups operating in the area."
The circumstances of Ishaq's killing are bound to raise questions given a long police record of staging such encounters to eliminate suspects.
One senior police investigator not involved in this case, said police often staged such clashes as they did not have faith the courts would be brave enough to convict high-profile militants for fear of retaliation.
The investigator, who declined to be identified, said Ishaq's killing bore the hallmarks of police action under a National Action Plan (NAP) against militancy, launched last December after Pakistani Taliban militants killed 134 students at an army-run school in the city of Peshawar.
"This is NAP in action," the investigator said. "State policy on this is indiscriminate and broad-based: terrorists will not be tolerated, no matter who they are or what group they belong to.”
Another senior police official said Punjab province was being put on alert in anticipation of retaliatory attacks.

Tuesday, July 28, 2015

بیلٹ باکس یا کوڑے دان؟

آخری گیند اور آخری بلے باز تک لڑنے والے عمران خان سے نئی سیاسی روایات کی کچھ زیادہ ہی توقعات پیدا ہو گئی تھی۔انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد عمران خان ایک اچھے کھلاڑی کی طرح اپنی ناقص کارکردگی کااقرار کرنے کی بجائے مخالف کھلاڑیوںاور ایمپائروں پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ اگر دھاندلی کے الزامات سے متعلق خان صاحب اتنے سنجیدہ ہوتے تو انہیں ثابت کرنے میں ناکامی پر تھوڑی سی شرمندگی اور ناکامی کا اعتراف ضرور کرتے اپنی جماعت سے ہی معافی مانگ لیتے قوم سے نہ سہی آخر وہ کریں بھی تو کیا۔اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکامی کا اعتراف کر کے خود کو پارٹی کی سربراہی سے دستبردار کرنے یا کم از کم پارلیمنٹ کے اجلاس میں ذاتی طور پر شریک ہونے کا اعلان کرنے کے لئے بھی اخلاقی جرا¿ ت کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ تو پرانے پاکستان کی سیاست کی روایت ہے اور نہ ہی نئے پاکستان کی سیاست میں امکان۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے
تاہم اخلاقیات اور اقدار کی کمی صرف تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں ۔انکوائری کمیشن کی رپورٹ نے ن لیگ اور اسکی حکومت کو وقتی طور پر مضبوط تو کر دیا ہے مگر شفاف عوامی مینڈیٹ والے حکمران اس مینڈیٹ کا عملی طور پر جو حشر کر رہے ہیں اسکے بعد یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ووٹ، ووٹ ہوتا ہے اصلی ہو یا جعلی۔عدالتی کمیشن کی رپورٹ نے حکومت کو مضبوط تو کر دیا مگر حکومت ہے کس کی یہ معاملہ حل طلب ہی رہے گا ۔فیصلے اب بھی وہاں ہوں گے جہاں پہلے ہوتے تھے۔ چند حکومتی وزراء کے بیانات اورٹی وی اینکر حضرات کے بیانات سے لگتا ہے کہ معاملہ منظم دھاندلی کا کبھی تھا ہی نہیں۔کمیشن کی رپورٹ سے جمہوریت اتنی مضبوط نہیں ہوئی جتنی رسوائی اس کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سودے بازی سے اٹھانی پڑی۔ کمیشن کی طرف سے جاری کردہ شفاف عوامی مینڈیٹ کا سرٹیفیکیٹ لہرانے والے چند وزراء اور ان کی حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سر عام پاک فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہان پر تحریک انصاف کے دھرنوں کو ترتیب دینے کا الزام لگا رہے ہیں۔
یہ وزراء کس منہ سے اُس شفاف عوامی مینڈیٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیںجس کو فوج کے چند جرنیلوں کے معاملے میں بروئے کار لاناان کے لئے ممکن ہی نہیں۔بے وقوفی اور نادانی کی انتہا دیکھیں کہ نام تو محض آئی ایس آئی کے سابق سربراہان کا لیا جا رہا ہے مگر بدنام (صحیح یا غلط) فوج کی موجودہ قیادت ہو رہی ہے۔آخر وزیر دفاع یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کے ہوتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل ایسی مہم جوئی کی ہمت بھی کر سکتے ہیں؟
اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تووزیر اعظم نواز شریف اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کو روکنے کے لئے شفاف عوامی مینڈیٹ کا بر وقت استعمال کیوں نہیں کیا؟سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنا کمزور دلوں کی نشانی ہے۔ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئیے۔کیاانکوائری کمیشن کی رپورٹ پر بھنگڑا ڈالنے والے حکمرانوں نے ایسے شفاف عوامی مینڈیٹ کا اچار ڈالنا ہے۔ایسے میں کیا فرق پڑتا ہے کہ تین معزز جج صاحبان دھاندلی کے الزامات کو مسترد کریں یا منظور۔انتخابات میں دھاندلی ایک سنگین معاملہ سہی مگر جو دھاندلی عوامی مینڈیٹ اور جمہوریت کے ساتھ مقتدر قوتیں کر رہی ہیں وہ ہمارے سیاسی نظام کے لئے ناسور بنتا جا رہا ہے۔ جب بیلٹ کی بجائے بلٹ کے زور پرقوموں کی تقدیر لکھی جا رہی ہو تو وہاں جعلی اور اصلی ووٹ میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ جہاں انصاف کے لئے فوجی عدالتیں اور اہم فیصلوں کے لئے عسکری نمائندوں کی شمولیت سے ایپکس کمیٹیاں بنائی جائیں۔ وہاں ووٹ کی پرچی سے ناک ہی صاف کیا جا سکتا ہے جس ملک میں حکومت اور اس کے وزراء چند مہم جو ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف اپنے آئینی اور قانونی اختیار کو استعمال کرنے کی بجائے عوام سے انصاف کی بھیک مانگ رہے ہوں تو اس ملک میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بیلٹ پیپروں کی اضافی چھپوائی کیوں ہوئی یا مقناطیسی سیاہی کا استعمال کیسے یا کیوں نہیں ہوا۔جس ملک میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات اور ثبوتوں کی فراہمی کے لئے فوج کے خفیہ اداروں کی معاونت کا قانون بنایا جائے تو اس ملک میں انتخابی عمل کی ہی کیا ضرورت ہے۔اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ تحریک انصاف کے اصرار پر انکوائری کمیشن کو آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس سے بھی دھاندلی کی تفتیش کروانے کا قانونی اختیار دے دیا گیا تھا۔
ان دو اداروں کے پاس منظم دھاندلی کے حوالے سے ثبوت ہو تو سکتے تھے مگر کیا ہونے چاہئیے تھے یا نہیں؟یہ ادارے نجی ٹیلیفون گفتگو، نجی ملاقاتوں اور گفتگو کی خفیہ آڈیو وڈیو کے علاوہ انتہائی خفیہ دستاویزات کے محافظ ہوتے ہیں مگر کسی جمہوری نظام میں انتخابی عمل کی نگرانی کرنا ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔اس کے باوجود انکوائری کمیشن کے قانون میں یہ اختیار دیا گیا جس پر عمران خان اور نواز شریف دونوں کی ایسی جمہوری سوچ پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔عمران خان بظاہر خفیہ اداروں سے جو امید لگا کر بیٹھے تھے وہ پوری نہیں ہوئی اور خان صاحب نہر والے پل پر ثبوتوں کا انتظار کرتے رہ گئے۔ نواز شریف نے بھی بظاہر 1990ء کے انتخابات کے دوران بنائے گئے تعلقات و تجربات کا خوب استعمال کیا۔ویسے بھی ایسے خفیہ شواہد منظر عام پر آنے سے اصل حکمرانوں کی شناخت ہو جاتی اور لوگ جان جاتے کہ جن بیلٹ بکسوں میں دھاندلی کا شور شرابہ ہے ان کی اہمیت حقیقت میں کوڑے دانوں سے زیادہ نہیں۔
نجانے یہ کیسے سیاستدان ہیں جو عوامی مینڈیٹ کی چوری کا رونا روتے ہیں یا اس کے شفاف ہونے کا گھمنڈ کرتے ہیںمگراگلے ہی سانس میں ان قوتوں سے مدد مانگتے ہیں جو اس مینڈیٹ کی چوری نہیں بلکہ اس پردن دھاڑے ڈاکہ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ جو دھاندلی بظاہر عمران خان کے ساتھ ثبوتوں کے وعدے کے ذریعے کی گئی اس کے بارے میں تو خان صاحب کے لئے
”اظہار بھی مشکل ہے ۔کچھ کہہ بھی نہیں سکتے“۔
لگتا ہے خان صاحب بھی دوسرے سیاست دانوں کی طرح استعمال ہو گئے۔ نجانے اُن کے لئے یہ سمجھنا کتنا مشکل تھا کہ پاکستان میں عوامی حمایت اور طاقت کے دعویدار سیاست دان اگر ووٹ کی حرمت کا نعرہ لگاتے ہیں تو انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے،کچھ کی لاش لٹکا دی جاتی ہے اور کچھ کو زندہ لاش بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔خان صاحب کے فوج سے متعلق سوشل میڈیا پر متنازعہ بیان کی ویڈیوسے تو لگتا تھاکہ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر شاید وہ بیان بھی محض اس لئے دیا گیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ خود کو خالص سیاسی لیڈر ظاہر کر سکیں۔
ان حالات میں سپریم کو رٹ کے معزز جج صاحبان پر مشتمل انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی اہمیت ایک گنجے کی جیب میں کنگھی سے زیادہ نہیں۔جس ملک میں آئینِ پاکستان کے ساتھ 3 نومبر 2007ء اور اس سے پہلے 12 اکتوبر 1999ء کو دن دہاڑے اور 9 سال تک ہونے والی دھاندلی و سنگین غداری کو ثابت نہ کیا جا سکے اس ملک میں انتخابی دھاندلی کے ثبوت کہاں سے لائے جائیں۔ اور ویسے بھی 1990ء میں بمطابق سپریم کورٹ جو عوامی مینڈیٹ چرایا گیا اور دھاندلی ثابت ہوئی ہم نے بطور قوم اور حکومت اس بارے میں کیا تیر مار لیاہے۔اس تمام صورتحال میں ہماری جمہوریت کی مثال اس زیادتی کا شکار خاتون کی سی ہے جس کا نکاح اس کے مجرم یا مجرم کے بھائی سے کر دیا جائے۔مگر پھر ایسی شادی کی نکاح رجسٹرار ہماری عدالتیں بھی اس پر انگوٹھا لگا دیں تو محترمہ جمہوریت دکان سجانے کی بجائے گھر بسانے کو ترجیح نہ دے تو کیا کرے ۔یہ اور بات ہے کہ دکان سجانے والی سیاسی قیادت کی بھی کمی نہیںجو ایسے گھر کو بھی نہیں بخشتی اوراسے اجاڑنے کے لئے اپنی منڈیر پر کھڑی دعوت گناہ دیتی رہتی ہے۔مختصر یہ کہ اب وقت آگیا ہے کہ جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کی ڈولی کواس کے مجرموں کے ساتھ رخصت نہ کیا جائے اور اس کے لئے ایک سوال کا واضح جواب دینا ہو گا ۔۔۔۔"جمہوریت ولد آئین ِپاکستان تمہیں محافظ ولد قانون پاکستان کے نکاح میں بعوض حق مہر پانچ سالہ مدت شراکتی اقتدار دیا جاتا ہے۔ کیا تمہیں قبول ہے؟"


Shia


اے دشمنِ صحابہؓ تجہے کیوں انکار صحابہؓ کا

ہرحال میں تجھ سے پوچہے گا یہ تابعدار صحابہؓ کا 

Monday, July 27, 2015

Police in the Saudi city of Jeddah arrested on Sunday one man suspected of harassing two girls on the city’s Corniche after a video of a group of teenagers and young boys collectively harassing the two women was circulated on social media. Authorities launched an investigation into the incident and are in pursuit of the remaining harassers, Al Arabiya News Channel reported. The video shows a group of teenagers and young boys collectively harassing two women along a park in Jeddah’s Corniche. It is unclear when the video was filmed, however it was uploaded to YouTube in the past week. A police source told Al Arabiya that authorities in Jeddah are analyzing the video to identify those involved in the incident and summon them. Colonel Aati bin Attiyah Al-Qurashi, a police spokesperson, said no official complaint had been filed on the matter, but added that it was still the police’s responsibility to investigate the video. “Jeddah police, under the supervision of its chief, Major General Masoud al-Adwani, have begun analyzing the video and looking into information related to the incident. [They intend to] find out who was involved, expose their identities, summon them and take the appropriate legal measures against them,” Qurashi added.
لبنان کے سابق وزیر ڈاکٹر فایز شکر صراحہ میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران اس وقت ماضی کے بدبخت کردار ابرھہ الحبشی کی روح حلول کر آئی کہ جب انہوں نے اپنے محبوب شامی صدر بشار الاسد کو گزند پہنچنے کی صورت میں 'کعبہ اللہ اور اس میں سب کچھ' تباہ کرنے جیسے یاوا گوئی شروع کر دی. ڈاکٹر فایز نے لبنانی کابینہ میں وزیر رہنے کے ساتھ سات برس تک 'بعث پارٹی' کے علاقائی سربراہ کے طور پر خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں. فایز شکر صراحہ نے مسلمانوں کے مقدس ترین مقام کے خلاف یاوا گوئی کا اظہار حزب اللہ کے حلیف اور لبنانی پارلیمنٹ کے رکن میشل عون کی جماعت 'الحر پارٹی' کے زیر انتظام چلنے والے نجی ٹی وی "او ٹی وی" میں ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا. العربیہ ڈاٹ نیٹ نے طویل انٹرویو سے وہ سمعی اور بصری کلپ اس خبر کے ویڈیو ٹیزر کے طور پر شامل کیا ہے جس میں فایز اپنے سیاسی مربی اور سرپرست بشار الاسد کی محبت میں دیوانہ وار بیت اللہ کے خلاف ہزیاں بکتا ہوا صاف طور دیکھا اور سنا جا سکتا ہے. پروگرام کے میزبان نے جب فایز کی توجہ ان کی انتہائی اشتعال انگیر دھمکی کی طرف دلائی تو انسان کے روپ میں شیطان صف فایر یوں گویا ہوا کہ "کعبہ اللہ تو پتھروں سے چنی گئی عمارت ہے اور انسان کی وقعت کسی بھی پتھر اور پہاڑ سے زیادہ ہے." انہوں نے کہا کہ میں تو ماضی میں بشار الاسد کو نقصان کی صورت میں جبل صھیون کو بھی نقصان پہنچانے جیسا بیان دے چکا ہے. انٹرویو لینے والے اینکر پرسن نے حیران ہو کر بتایا کہ مکہ مکرمہ ایک مقدس شہر ہے، یہ دیگر پہاڑوں کی طرح صرف جمادات نہیں، اس پر فایز نے کہا کہ چلیں میری بات سے آپ مقدس شہر کو نقصان پہنچانا ہی لے لیں، پھر اسی سانس میں انہوں نے بشار کو نقصان پہنچانے کی صورت میں جدہ اور ریاض کے حوالے سے بھی اپنے انتہاء پسند خیالات دہرائے.

Syeda Afrin Abbas (@Afrin_Abbas): Jis Nabi ka kalma parha uske nawasey ke فوٹو شاپ سے جعلی تصاویر بناکر مزے لینے والوں کے پوسٹ. .


فوٹو شاپ سے جعلی تصاویر بناکر مزے لینے والوں کے پوسٹ. .